تمام
غزل58
شعر107
ای-کتاب1
ویڈیو 4
تعارف
گیلری 1
کلام10
دوہا10
راگ آدھارت پد3
بیت4
نعت و منقبت7
ساون1
ہولی1
کرشن بھکتی صوفی شاعری3
مضطر خیرآبادی کے اشعار
وہی اب بعد مردن قبر پر آنسو بہاتے ہیں
نہ آیا تھا جنہیں میری محبت کا یقیں برسوں
مری تربت پہ خود ساقی نے آ کر یہ دعا مانگی
خدا بخشے بہت اچھی گزاری مے پرستی میں
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکی میں وہ ایک مشت غبار ہوں
محبت بت کدے میں چل کے اس کا فیصلہ کر دے
خدا میرا خدا ہے یا یہ مورت ہے خدا میری
میں اندھیری گور ہوں اور تو تجلی طور کی
روشنی دے جا چراغ روئے جانانہ مجھے
مضطرؔ اس نے سوال الفت پر
کس ادا سے کہا خدا نہ کرے
کچھ ایسا درد شور قلب بلبل سے نکل آیا
کہ وہ خود رنگ بن کر چہرۂ گل سے نکل آیا
نہیں دیتا جو مے اچھا نہ دے تیری خوشی ساقی
پیالے کچھ ہمیشہ طاق پر رکھے نہیں رہتے
یہ وہ بدلا ہے سنگ آستاں کی جبہ سائی کا
کہ آئے اور میری قبر پر اپنی جبیں رکھ دی
دوئی جا کے رنگ صفا رہ گیا
خودی مٹتے مٹتے خدا رہ گیا
جدائی میں یہ دھڑکا تھا کہ آنچ ان پر نہ آ جائے
بجھائی آنسوؤں سے ہم نے آہ آتشیں برسوں
وہی اب بعد مردن قبر پر آنسو بہاتے ہیں
نہ آیا تھا جنہیں میری محبت کا یقیں برسوں
وہ پہلی سب وفائیں کیا ہوئیں اب یہ جفا کیسی
وہ پہلی سب ادائیں کیا ہوئیں اب یہ ادا کیوں ہے
قناعت دوسرے کے آسرے کا نام ہے مضطرؔ
خدا ہے جو کوئی حد توکل سے نکل آیا
ڈوب جانے کی ہدایت جو کبھی موج نے دی
آنکھ دینے کو حباب لب دریا نکلا
ٹھہرنا دل میں کچھ بہتر نہ جانا
بھرے گھر کو انہوں نے گھر نہ جانا
محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے
مگر پھر دشمن ایمان و دیں معلوم ہوتی ہے
نہیں یہ کہتا میں تجھ سے قاصد کہ ان سے بے وقت حال کہہ دے
مگر جو پہلو نظر سے گزرے تو اس سے پہلو تہی نہ کرنا
کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
بہانے سے خدا نے مار ڈالا
خدا جانے مری مٹی ٹھکانے کب لگے مضطرؔ
بہت دن سے جنازہ کوچۂ قاتل میں رکھا ہے
خدا جانے مری مٹی ٹھکانے کب لگے مضطرؔ
بہت دن سے جنازہ کوچۂ قاتل میں رکھا ہے
بتوں سے ہم حصول صبر کی امید کیوں رکھیں
یہ کیا دیں گے خدا کے پاس سے خود ناصبور آئے
اس سے پہلے آنکھ کی پتلی کی کیا اوقات تھی
تیرے نقطہ دیتے ہی کیا کیا نظر آنے لگا
مجھے ناشاد کر کے آسماں راحت نہ پائے گا
مجھے برباد کر کے خاک چھانے گی زمیں برسوں
اے عشق عطا کر دے ایسا مجھے کاشانہ
جو کعبے کا کعبہ ہو بت خانے کا بت خانہ
بگاڑ قسمت کا کیا بتاؤں جو ساتھ میرے لگی ہوئی ہے
کہیں کہیں سے کٹی ہوئی ہے کہیں کہیں سے مٹی ہوئی ہے
ہماری تربت پہ تم جو آنا تو ساتھ اغیار کو نہ لانا
خوشی کے صدمے ہمیں نہ دینا ہمارے غم کی خوشی نہ کرنا
محبت میں جدائی کا مزا مضطرؔ نہ جانے دوں
وہ بلبل ہوں کہ گل پاؤں تو پتا درمیاں رکھوں
اک راز ہے اے مضطرؔ تربت کا اندھیرا بھی
آئی ہے پئے ماتم کعبے کی سیہ پوشی
آپ آئیں تو سہی ٹھوکر لگانے کے لیے
میری تربت دیکھ کر آنسو رواں ہو جائیں گے
تلاش بت میں مجھ کو دیکھ کر جنت میں سب بولے
یہ کافر کیوں چلا آیا مسلمانوں کی بستی میں
طبیعت جو صبر آزما ہو گئی
جفا رفتہ رفتہ وفا ہو گئی
محبت خوف رسوائی کا باعث بن ہی جاتی ہے
طریق عشق میں اپنوں سے پردا ہو ہی جاتا ہے
اس سے کہہ دو کہ وہ جفا نہ کرے
کہیں مجھ سا اسے خدا نہ کرے
تم اپنی زلف کھولو پھر دل پر داغ چمکے گا
اندھیرا ہو تو کچھ کچھ شمع کی آنکھوں میں نور آئے
خون دل جتنا تھا سارا وقف حسرت کر دیا
اس قدر رویا کہ میری آنکھ میں آنسو نہیں
میں اندھیری گور ہوں اور تو تجلی طور کی
روشنی دے جا چراغ روئے جانانہ مجھے
محبت میں سراپا آرزو در آرزو میں ہوں
تمنا دل مرا ہے اور مرے دل کی تمنا تو
تو اے محبت گواہ رہنا کہ تیرے مضطرؔ کو وقت آخر
خیال ترک خودی رہا ہے تو دل میں یاد خدا رہی ہے
وصل کا انتظار ہی اچھا
یہ تو مضطرؔ خدا کرے کہ نہ ہو
کسی بت کی ادا نے مار ڈالا
بہانے سے خدا نے مار ڈالا
وہ طور والی تری تجلی غضب کی گرمی دکھا رہی ہے
وہاں تو پتھر جلا دیے تھے یہاں کلیجہ جلا رہی ہے
میں کیا بے وفا ہوں کہ محشر میں قاتل خدا سے کروں شکوۂ قتل اپنا
زمانہ کہے خون ناحق بہایا اگر مجھ سے پوچھا تو پانی کہوں گا
نہ تم آئے نہ اپنی یاد کو بھیجا مرے دل میں
یہ وہ گھر ہے کہ جس کو تم نے رکھا بے مکیں برسوں
ترا ترک ستم بھی اک ستم ہے یہ ستم کیسا
تری ترک جفا بھی اک جفا ہے یہ جفا کیوں ہے
میان تشنگی پیاسوں نے ایسی لذتیں لوٹیں
کہ آب تیغ قاتل بے مزا معلوم ہوتا ہے
گور دیتی ہے نوید رسم مہمانی مجھے
گھر بسانے لے چلی ہے میری ویرانی مجھے
آنکھوں میں ترے گھر کا نقشہ نظر آتا ہے
کعبے کی سیہ پوشی پتلی سے عیاں کر دی
اندھیرا قبر کا دیکھا تو پھر یاد آ گئے گیسو
میں سمجھا تھا کہ اب میں تیرے کاکل سے نکل آیا
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere