Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama
Arsh Gayavi's Photo'

عرش گیاوی

1880 - 1936 | گیا, بھارت

چودھویں صدی ہجری کا ایک صوفی شاعر

چودھویں صدی ہجری کا ایک صوفی شاعر

عرش گیاوی کے اشعار

باعتبار

تمہیں علم کچھ جو ہو عالمو تو بتا دو مجھ کو نہ چپ رہو

کہ شراب عشق کا مست ہوں یہ حلال ہے کہ حرام ہے

میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی

چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا

وہ لوگ منزل پیری میں ہیں جو آئے ہوئے

خیال قبر میں بیٹھے ہیں سر جھکائے ہوئے

نہ ہوتی دل میں الفت اپنی کیوں قاتل کے ابرو کی

کہ مجھ کو تو قتیل خنجر سفاک ہونا تھا

آرزو تھی کربلا میں دفن ہوتے عرشؔ ہم

دیکھتے مر کر بھی روضہ حضرت شبیر کا

درد کی صورت اٹھا آنسو کی صورت گر پڑا

جب سے وہ ہمت نہیں کسی بل نہیں طاقت نہیں

میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی

چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا

وہ مجنوں کی تصویر پر پوچھنا

تری کس کے غم میں یہ صورت ہوئی

ذبح کرتی ہے جدائی مجھ کو اس کی صبح وصل

خواب سے چونک اے موذن وقت ہے تکبیر کا

تم قبر پر آئے ہو مری پھول چڑھانے

مجھ پر ہے گراں سایۂ برگ گل تر بھی

جہاں ہیں محو نغمہ بلبلیں گل جس میں خنداں ہیں

اسی گلشن میں کل زاغ و زغن کا آشیاں ہوگا

یہ رعب ہے چھایا ہوا شام شب غم کا

دیتا نہیں آواز بجانے سے گجر بھی

تری راہ میں جو فنا ہوئے کہوں کیا جو ان کا مقام ہے

نہ یہ آسمان ہے نہ یہ زمیں نہ یہ صبح ہے نہ یہ شام ہے

اس نے لکھا خط میں یہ شکوہ نہ کرنا جور کا

ہم نے لکھ بھیجا ہے اتنا اپنی یہ عادت نہیں

سیاہی تیرہ بختی کی ہماری

شب غم بن گئی ہے آسماں پر

میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی

چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا

ازل سے مرغ دل کو خطرۂ صیاد کیا ہوتا

کہ اس کو تو اسیر حلقۂ فتراک ہونا تھا

گھیرے ہوئے کشتی کو ہے طوفاں بھی بھنور بھی

حاصل ہے مجھے گھر بھی یہاں لطف سفر بھی

نخل بند گلشن مضموں ہوں فیض فکر سے

ہر ورق دیواں کا میرے باغ ہے کشمیر کا

فراق میں ہیں ہم انداز دل کا پائے ہوئے

یہ وہ چراغ ہے جلتا ہے بے جلائے ہوئے

پھر وہ آ جاتا کسی دن قبر پر

اک نشان بے نشانی اور ہے

سب کچھ خدا نے مجھ کو دیا عرشؔ بے طلب

دختر کی آرزو نہ تمنا پسر کی ہے

اے عرشؔ آؤ خاک میں دلی کے سو رہیں

مٹ کر بھی خواب گاہ یہ اہل ہنر کی ہے

ہوا گل مری زندگی کا چراغ

نمایاں جو شام مصیبت ہوئی

قاتل وہ شاخ ہے تری یہ تیغ آب دار

جس کو نہ گل کا غم ہے نہ حاجت ثمر کی ہے

گلے آ کے مل لیجیے عید ہے

زمانہ ہوا ایک مدت ہوئی

اور ہیں جن کو ہے خبط عشق حوران جناں

ہم کو سودائے ہوائے گلشن جنت نہیں

لئے پھرتی ہے اشکوں کی روانی

رواں ہوں کشتی آب رواں پر

میں وہ گل ہوں نہ فرصت دی خزاں نے جس کو ہنسنے کی

چراغ قبر بھی جل کر نہ اپنا گل فشاں ہوگا

سیاہی تیرہ بختی کی ہماری

شب غم بن گئی ہے آسماں پر

ہوا گل مری زندگی کا چراغ

نمایاں جو شام مصیبت ہوئی

کس طرح نہ پہلو میں رقیبوں کو جگہ دے

آغوش میں ہر سنگ کے ہوتا ہے شرر بھی

یہی پہچان بحر غم میں ہوگی میری کشتی کی

نہ اس پر ناخدا ہوگا نہ اس میں بادباں ہوگا

جان چھوٹے الجھنوں سے اپنی یہ قسمت نہیں

موت بھی آئے تو مرنے کی مجھے فرصت نہیں

گھیرے ہوئے کشتی کو ہے طوفاں بھی بھنور بھی

حاصل ہے مجھے گھر بھی یہاں لطف سفر بھی

مے سے چلو بھر دے ساقی جام کا کیا انتظار

ابر آیا جھوم کر موقع نہیں تاخیر کا

اور ہیں جن کو ہے خبط عشق حوران جناں

ہم کو سودائے ہوائے گلشن جنت نہیں

تو وہ گل رعنا ہے جو آ جائے چمن میں

جھوما کریں اک وجد کے عالم میں شجر بھی

گل گیر کا خطر تو پتنگوں کی ہے خلش

آفت میں جان شام سے شمع سحر کی ہے

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

Recitation

بولیے