تمام
تعارف
کلام20
نعت و منقبت23
غزل64
شعر87
ویڈیو 39
گیلری 1
قطعہ1
گاگر1
چادر5
فارسی صوفی شاعری1
سہرا4
بلاگ2
سلام3
مبارک2
ہولی1
رباعی3
بیدم شاہ وارثی کے اشعار
مرا سر کٹ کے مقتل میں گرے قاتل کے قدموں پر
دم آخر ادا یوں سجدۂ شکرانہ ہو جائے
ساغر کی آرزو ہے نہ پیمانہ چاہیے
بس اک نگاہ مرشد مے خانہ چاہیے
مجھی کو دیکھ لیں اب تیرے دیکھنے والے
تو آئینہ ہے مرا تیرا آئینا ہوں میں
نہ تو اپنے گھر میں قرار ہے نہ تری گلی میں قیام ہے
تری زلف و رخ کا فریفتہ کہیں صبح ہے کہیں شام ہے
کیسے کہہ دوں کہ غیر سے ملیے
ان کہی تو کہی نہیں جاتی
نہیں تھمتے نہیں تھمتے مرے آنسو بیدمؔ
راز دل ان پہ ہوا جاتا ہے افشا دیکھو
شکوہ ہے کفر اہل محبت کے واسطے
ہر اک جفائے دوست پہ شکرانہ چاہیے
عشق کی ابتدا بھی تم حسن کی انتہا بھی تم
رہنے دو راز کھل گیا بندے بھی تم خدا بھی تم
ہم رنج بھی پانے پر ممنون ہی ہوتے ہیں
ہم سے تو نہیں ممکن احسان فراموشی
ہوش نہ تھا بے ہوشی تھی بے ہوشی میں پھر ہوش کہاں
یاد رہی خاموشی تھی جو بھول گئے افسانہ تھا
عشق ادا نواز حسن حسن کرشمہ ساز عشق
آج سے کیا ازل سے ہے حسن سے ساز باز عشق
نہ قرب گل کی تاب تھی نہ ہجر گل میں چین تھا
چمن چمن پھرے ہم اپنا آشیاں لیے ہوئے
ستم گر تجھ سے امید کرم ہوگی جنہیں ہوگی
ہمیں تو دیکھنا یہ تھا کہ تو ظالم کہاں تک ہے
میرے نالہ سن کے فرماتے ہیں وہ
یہ اسی کی دکھ بھری آواز ہے
صدقے اے قاتل ترے مجھ تشنۂ دیدار کی
تشنگی جاتی رہی آب دم شمشیر سے
عشق ادا نواز حسن حسن کرشمہ ساز عشق
آج سے کیا ازل سے ہے حسن سے ساز باز عشق
اف رے باد جوش جوانی آنکھ نہ ان کی اٹھتی تھی
مستانہ ہر ایک ادا تھی ہر عشوہ مستانہ تھا
عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے
لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہیے
تم خفا ہو تو اچھا خفا ہو
اے بتو کیا کسی کے خدا ہو
بلبل کو مبارک ہو ہوائے گل و گلشن
پروانے کو سوز دل پروانہ مبارک
گل کا کیا جو چاک گریباں بہار نے
دست جنوں لگے مرے کپڑے اتارنے
تیری الفت شعبدہ پرواز ہے
آرزو گر ہے تمنا ساز ہے
قفس میں بھی وہی خواب پریشاں دیکھتا ہوں میں
کہ جیسے بجلیوں کی رو فلک سے آشیاں تک ہے
اسے بھی ناوک جاناں تو اپنے ساتھ لیتا جا
کہ میری آرزو دل سے نکلنے کو ترستی ہے
اے چشم تمنا تری امید بر آئے
اٹھتا ہے نقاب رخ جانانہ مبارک
ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر
یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے
سجا کر لخت دل سے کشتیٔ چشم تمنا کو
چلا ہوں بارگاہ عشق میں لے کر یہ نذرانہ
غیر کا شکوہ کیوں کر رہتا دل میں جب امیدیں تھیں
اپنا پھر بھی اپنا تھا بیگانہ پھر بیگانہ تھا
زمیں سے آسماں تک آسماں سے لا مکاں تک ہے
خدا جانے ہمارے عشق کی دنیا کہاں تک ہے
منتظر ہے آپکے جلوہ کی نرگس باغ میں
گل گریباں چاک شبنم اک طرف نم دیدہ ہے
آرائش حسن آئینہ رخ کرتے ہو ہر دم
لینا ہے مگر دم تمہیں منظور کسی کا
کچھ رہا بھی ہے بیمار غم میں
اب دوا ہو تو کس کی دوا ہو
اس کے ہوتے خودی سے پاک ہوں میں
خوب ہے بے خودی نہیں جاتی
میں غش میں ہوں مجھے اتنا نہیں ہوش
تصور ہے ترا یا تو ہم آغوش
در وارث پہ ہے بیدمؔ کا بستر
تری جنت تجھے رضواں مبارک
کل غیر کے دھوکے میں وہ عید ملے ہم سے
کھولی بھی تو دشمن نے تقدیر ہم آغوشی
کون سا گھر ہے کہ اے جاں نہیں کاشانہ ترا اور جلوہ خانہ ترا
مے کدہ تیرا ہے کعبہ ترا بت خانہ ترا سب ہے جانانہ ترا
بیدمؔ وہ خوش نہیں ہیں تو اچھا یوں ہی سہی
نا خوش ہی ہو کے غیر مرا کیا بنائیں گے
نہ نشاط وصال نہ ہجر کا غم نہ خیال بہار نہ خوف خزاں
نہ سقر کا خطر ہے نہ شوق ارم نہ ستم سے حذر نہ کرم سے غرض
بیدمؔ تمہاری آنکھیں ہیں کیا عرش کا چراغ
روشن کیا ہے نقش کف پائے یار نے
نکالے حوصلہ مقتل میں اپنے بسمل کے
نثار تیغ کے قربان ایسے قاتل کے
مجھی سے پوچھتے ہو میں ہی بتلا دوں کہ تم کیا ہو
تجلی طور سینا کی میرے گھر کا اجالا ہو
میں ساز حقیقت ہوں دم ساز حقیقت ہوں
خاموشی ہے گویائی گویائی ہے خاموشی
کہیں ہے عبد کی دھن اور کہیں شور انا الحق ہے
کہیں اخفائے مستی ہے کہیں اظہار مستی ہے
ہلکی سی اک خراش ہے قاصد کے حلق پر
یہ خط جواب خط ہے کہ خط کی رسید ہے
فرقت میں ترے غم و الم نے
تنہا مجھے پا کے مار ڈالا
عاشق نہ ہو تو حسن کا گھر بے چراغ ہے
لیلیٰ کو قیس شمع کو پروانہ چاہیے
گر قلزم عشق ہے بے ساحل اے خضر تو بے ساحل ہی سہی
جس موج میں ڈوبے کشتئ دل اس موج کو تو ساحل کر دے
اسرار محبت کا اظہار ہے نا ممکن
ٹوٹا ہے نہ ٹوٹے گا قفل در خاموشی
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere