تمام
تعارف
مثنوی97
فارسی کلام36
رباعی7
ای-کتاب28
فارسی صوفی شاعری204
ملفوظ71
صوفی اقوال164
ویڈیو 24
بلاگ6
صوفیوں کی حکایتیں121
شعر5
گیلری 3
نعت و منقبت1
رومی کی صوفیوں کی حکایتیں
ایک صوفی کا اپنا خچر خادمِ خانقاہ کے حوالے کرنا اور خود بے فکر ہوجانا۔ دفتردوم
ایک صوفی سیر و سفر کرتا ہوا کسی خانقاہ میں رات کے وقت اتر پڑا۔ سواری کا خچّر تو اس نے اصطبل میں باندھا اور خود خانقاہ کے اندر مقامِ صدر میں جا بیٹھا۔ اہلِ خانقاہ پر وجد و طرب کی کیفیت طاری ہوئی پھر وہ مہمان کے لئے کھانے کا خوان لائے۔ اس وقت صوفی کو اپنا
ایک واعظ کا بُروں کے لئے دعا کرنا
ایک واعظ جب وعظ کے لیے چوکی پر بیٹھتا تو گمراہوں کے لیے دعا کیا کرتاتھا۔ وہ ہاتھ پھیلا پھیلا کر دعا کرتاتھا یا اللہ ظالموں اور بدکاروں پر رحمت نازل فرما۔ مسخرا پن کرنے والوں، بد فطرتوں، سب سیاہ دلوں اور بت پرستوں تک، غرض سِوا پلیدوں کے اور کسی کے لیے
ایک مسافر صوفی کے گدھے کو صوفیوں کا بیچ کھانا۔ دفتردوم
عبرت کے طورپر یہ قصہ سن تاکہ تم تقلید کی آفت سے خبردار ہوجاؤ۔ ایک صوفی بحالتِ سفر کسی خانقاہ میں پہنچا اور اپنے گدہے کو اصطبل میں باندھ کر ڈول میں پانی بھر کر پلایا اور گھاس اپنے ہاتھ سے ڈالی۔ یہ صوفی ویسا غافل صوفی نہ تھا جس کا ذکر پہلے آچکا ہے۔ اس
ایک شخص کا شیخ ابوالحسن خرقانی کی زیارت کو آنا اور ان کی بیوی کی بد زبانی۔ دفترششم
شہر طالقان سے ایک فقیر خرقان کو حضرت شیخ ابوالحسن کی شہرت سن کرگیا۔ بڑےپہاڑ اور جنگلوں کو ڈکر کے حضرت شیخ کے دیکھنے کو حاضر ہوا۔ جب منزلِ مقصود تک پہنچا تو حضرت کا مکان ڈھونڈ کر پہنچا۔ بڑے عجز و نیاز کے ساتھ اس نے کنڈی کھٹکھٹائی تو ایک عورت نے دروازے
ایک شخص کا خواب دیکھ کر خزانے کی امید پر مصر کو جانا۔ دفترِششم
ایک شخص کو وراثت میں مالِ کثیر ہاتھ آیا۔ وہ سب کھاگیا اور خود ننگا رہ گیا۔ سچ ہے کہ میراث کا مال نہیں رہا کرتا۔ جس طرح دوسرے سے الگ ہوا اسی طرح یہاں بھی جدا ہوجاتا ہے۔ میراث پانے والے کو بھی ایسے مال کی قدر نہیں ہوتی جو بے محنت اور تکلیف ہاتھ آجاتا ہے۔
شیر بھیڑیئے اور لومڑی کا مل کر شکار کو نکلنا۔ دفتراول
شیر، بھیڑیا اور لومڑی مل کر شکار کی تلاش میں پہاڑوں پہاڑوں نکل گئے اگر چہ شیرِ نر کو ان کی ہمراہی سے شرم آتی تھی لیکن کشادہ دلی کو کام میں لاکر ساتھ لے لیا۔ ایسے بادشاہ کو لاؤ لشکر زحمت کا باعث ہوتا ہے لیکن جب لشکر ساتھ ہو تو پھر جماعت رحمت ہے۔ جب وہ
حق تعالیٰ کا عزرائیل سے خطاب کہ تجھے کس پر رحم آیا؟ دفترششم
حق تعالیٰ نے عزرائیل سے پوچھا کہ اے ہماری سنائی پہنچانے والے! سب مرنے والوں میں تجھے کس پر رحم آیا؟ اور کس کی موت پر تیرا دل زیادہ درد مند ہوا؟ عزرائیل نے عرض کی کہ ایک دن ایک کشتی کو جو تیز موج پر بہہ رہی تھی، میں نے تیرے حکم سے توڑدیا اور وہ ریزہ
ایک چور کا دوسرے سنپیرے کا سانپ چرالینا۔ دفتردوم
ایک چور نے کسی سنپیرے کا سانپ چرالیا اور بے وقوفی سے مالِ موذی نصیب غازی سمجھا۔ سانپ زہریلا تھا۔ سنپیرا تو ڈسنے سے محفوظ رہا لیکن چور اسی سانپ سے ڈسا گیا۔ سنپیرے نے جب اسے دیکھا تو کہا کہ میری جان یہ دعا کرتی تھی کہ الٰہی ایسا کر کہ اپنے چور کو پکڑوں
چرواہے کی مناجات پر موسیٰ کا انکار۔ دفتردوم
ایک دن حضرت موسیٰ نے راستہ چلتے ایک چرواہے کو سنا کہ وہ کہہ رہاتھا کہ اے پیارے خدا! تو کہاں ہے۔ آ میں تیری خدمت کروں، تیرے موزے سیوں اور سر میں کنگھی کروں۔ تو کہاں ہے کہ میں تیری ٹہل خدمت بجالاؤں۔ تیرے کپڑے سیوں، پیوند پارہ کروں۔ تیرا جڑا ول دھوؤں ،
حضرت علی پر ایک کافر کا تھوکنا اور آپ کا اس کے قتل سے باز رہنا۔ دفتراول
حضرت علی کے عمل سے اخلاص کا طریق سیکھ۔ وہ خدا کے شیر تھے۔ ان کا فعل نفسانیت سے پاک تھا۔ ایک جنگ میں جب ایک دشمن زد میں آیا تو آپ تلوار سونت کر جھپٹے۔ اس نے حضرت علی کے چہرۂ پر نور پر جوہر نبی و ولی کا فخر تھے، تھوک دیا۔ اس نے ایسے چہرے پر تھوکا کہ اگر
حضرت عثمان کا منبر پر چُپ چاپ بیٹھنا
قصّہ عثمان سنو کہ جب آپ خلیفہ ہوئے تو منبرِ رسول پر جابیٹھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر تین پایوں کا تھا۔ حضرت ابو بکر دوسرے پائے پر بیٹھے تھے۔ حضرت عمر جو اعزازِ اسلام اور حفاظتِ دین کے لیے خلیفہ ہوئے تو آپ نے تیسرے پائے پر بیٹھنا اختیار کیا۔ جب
ایک شخص کا درِ محبوب کی کنڈی کھٹکھٹانا اور ’’میں ہوں‘‘ کہنا۔ دفتراول
ایک شخص درِ محبوب پر آیا اور کنڈی کھٹکھٹائی۔ محبوب نے پوچھا کون صاحب ہیں! جواب دیا کہ ’’میں ہوں‘‘ محبوب نے کہا، چل دور ہو ابھی ملاقات نہیں ہوسکتی۔ تجھ جیسی کچّی چیز کی اس دسترخوان پر کوئی جگہ نہیں۔ ہجر و فراق کی آگ کے بغیر کچّی جنس کیسے پک سکتی ہے جو
ایک حکیم کا مور پر اعتراض کرنا جو اپنے پر آپ اکھیڑ رہا تھا۔ دفترپنجم
ایک مور جنگل میں اپنے پر اکھیڑ رہاتھا۔ ایک حکیم بھی اس طرف سیر کرتا ہوا جانکلا۔ پوچھا کہ اے مور ! ایسے خوبصورت پر اور تو جڑوں سے اکھیڑے دیتا ہے۔ خود تیرے دل نے کیسے قبول کیا کہ ایسے نفیس لباس کو نوچ کھسوٹ کر کیچڑ میں پھینک دے؟ تیرے ایک ایک پر کو خوبصورتی
ابلیس کا نماز کے لیے معاویہ کو بیدار کرنا۔ دفتردوم
روایت ہے کہ امیر معاویہ اپنے گھر کے ایک گوشے میں سو رہے تھے۔ چوں کہ لوگوں کی ملاقات سے تھک گئے تھے اس لئے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کرلیا تھا۔ یکا یک ایک شخص نے جگادیا اور جب ان کی آنکھ کھلی تو غائب ہوگیا۔ آپ نے اپنے جی میں کہا کہ اس کے کمرے میں تو
ایک یہودی کا حضرت علی سے مکابرہ اور ان کا جواب۔
ایک دن ایک مدعی نے جو خدا کی عظمت سے آگاہ نہ تھا حضرت علی مرتضیٰ سے کہا کہ تم محل کے کوٹھے پر ہو اور خدا حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ اس سے بھی واقف ہو۔ حضرت علی نے فرمایا کیوں نہیں۔ وہ ہماری ہست وبود کا بچپن سے جوانی تک حفیظ و مربی رہاہے۔ اس نے کہا اگر ایسا
ایک بڈّھے کا طبیب سے شکایتِ مرض کرنا اور طبیب کا جواب دینا۔ دفتردوم
ایک بوڑھے شخص نے طبیب سے کہا کہ میں ضعفِ دماغ میں مبتلا رہتا ہوں۔ طبیب نے کہا کہ یہ ضعفِ دماغ بڑھاپے کے سبب سے ہے۔ پھر اس نے کہا کہ میری آنکھ میں دھندلا پن آگیا ہے۔ طبیب نےجواب دیا کہ اے مردِ بزرگ! یہ بھی بڑھاپے سے ہے۔ اس نے کہا کہ میری کمر میں درد رہتا
مجنوں اور لیلیٰ کی گلی کا کتّا۔ دفتردوم
مجنوں ایک کتے کی بلائیں لیتا تھا، اس کو پیار کرتا تھا اور اس کے آگے بچھاجاتا تھا۔ جس طرح حاجی کعبے کے گرد سچی نیت سے طواف کرتا ہے اسی طرح مجنوں اس کتے کے گرد پھر کر صدقے قربان ہورہا تھا۔ کسی بازاری نے دیکھ کر آواز دی کہ اے دیوانے یہ کیا پاکھنڈ تونے بنا
شاہی مصاحب کا اپنے سفارشی سے رنجیدہ ہونا۔
ایک بادشاہ اپنے مصاحب پر ناراض ہوا اور چاہا کہ ایسی سزا دے کہ دل سے دھنواں نکلنے لگے۔ بادشاہ نے تلوار نیام سے سونت لی۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ دم مارے یا کوئی سفارش کر سکے۔ البتہ عمادالملک نامی ایک مصاحب زمین پر گر پڑا۔ اسی وقت بادشاہ نے غضب کی تلوار ہاتھ
دوربین اندھا، تیز سننے والا بہرا اور دراز دامن ننگا۔ دفترِسوم
بچے بہت سے من گھڑت قصے کہتے ہیں۔ ان کہانیوں اور پہیلیوں میں بہت سے راز اور نصیحتیں ہوتی ہیں اور فضول باتیں بھی، لیکن تو انہی ویرانوں میں سے خزانہ تلاش کر۔ ایک بڑا گنجان شہر تھا۔ کوئی دس شہروں کے آدمی اس کے ایک شہر میں آباد تھے لیکن وہ سب کے سب تین ہی
ایک چمڑا رنگنے والے کا عطّاروں کے بازار میں بے ہوش ہونا۔
ایک چمڑا رنگنے والا اتفاق سے عطاروں کے بازار میں پہنچا تو یکا یک گر کر بے ہوش ہوگیا اور ہاتھ ٹیڑھے ہوگئے۔ عطروں کی خوشبو جو اس کے دماغ میں گھسی تو چکرا کر گر پڑا۔ اسی وقت لوگ جمع ہوگئے۔ کسی نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا اور کسی نے عرقِ گلاب لاکر چھڑکا۔ اور
درزی کا ایک مدعی تُرک کے کپڑے سے ٹکڑے چرانا۔ دفترششم
تم نے نہیں سنا کہ کوئی شیریں گفتار ایک رات یاروں میں بیٹھا درزیوں کی شکایت کر رہاتھا اور لوگوں کو اس گروہ کی چوریوں کے قصّے سنا رہاتھا۔ اس نے اچھا خاصا درزی نامہ پڑھ ڈالا اور خلقت اس کے اطراف جمع ہوکر سنتی رہی۔ سننے والوں کو جس قدر دلچسپی ہو رہی تھی
ایک شیخی خورے کا ہونٹ اور مونچھوں کو چربی سے چکنا کرنا۔ دفترسوم
سچائی اور جوش اولیا کا شعار ہے اس کے مقابل دغابازوں کی ڈھال بے شرمی ہے۔ مخلوقِ خدا کو اپنے دام میں گرفتار کرنے کے لئے ظاہر کرتے ہیں کہ ہم بالکل خوش اور بے فکر ہیں دراں حالیکہ ان کا باطن سراسر پریشان ہوتا ہے۔ ایک سفلے شخص کودنبے کی چکتی کا تِکّا مل
چار ہندوستانیوں کا نماز میں بات کرنا۔ دفتردوم
چار ہندوستانی ایک مسجد میں داخل ہوئے اور نماز پڑھنے لگے۔ ہر ایک نے الگ الگ تکیبر کہی اور بہت انکسار اور سوزِ درونی سے نماز میں مصروف ہوا۔ جب مؤذن آیا تو ان میں سے ایک کے منہ سے نکل گیا کہ اے مؤذن اذان بھی دی؟ ابھی وقت ہے۔ دوسرے نے بہت عاجزی سے کہا،
ایک دوست کا حضرت یوسف سے ملنے آنا اور حضرت یوسف کا اس سے ہدیہ طلب کرنا۔ دفتراول
ایک مہربان دوست کسی دور ملک سے آیا اور یوسف صدیق کا مہمان ہوا۔ چونکہ اپنے کو ہم کھیل کود کے زمانے کے یار تھے اس لئے یارانے کے گاؤ تکئے پر ٹیکا لگا کر بیٹھے۔ آگے دوبینی کر کے بھائیوں کے ظلم و حسد کا تذکرہ کیا۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ واقعہ زنجیر تھا اور
چڑی مار کو ایک پرندے کی نصیحت۔
ایک چڑی مارنے بڑی ترکیب سے پھندے میں چڑیا پکڑی۔ چڑیا نے اس سے کہا اے بزرگ سردار! فرض کیجئے آپ مجھ جیسی چھوٹی سی چڑیا کو پکڑ کر کھا بھی جائیں گے تو کیا حاصل ہوگا۔ اب تک آپ کتنی گائیں اور دُنبے کھا چکے ہیں اور کتنے اونٹ قربانی کر چکے ہیں۔ جب کہ آپ اتنے
ایک چوہے کا اونٹ کی نکیل کھینچنا۔ دفتردوم
ایک چوہے کے ہاتھ اونٹ کی نکیل لگ گئی وہ بڑی شان سے کھینچتا ہوا چلا۔ اونٹ جو تیزی سے اس کے ساتھ چلا تو چوہے کے سرمیں یہ ہوا سمائی کہ میں بھی پہلوان ہوں۔ اس کے خیال کی جھلک اونٹ پر پڑی تو اس نے کہا کہ اچھا تجھے اس کا مزا چکھاؤں گا۔ چلتے چلتے ایک بڑی ندی
حضرت عیسیٰ کا احمقوں سے دور بھاگنا۔ دفترِسوم
حضرت عیسیٰ ایک دفعہ پہاڑ کی طرف بے تحاشا جارہے تھے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ شاید کوئی شیر ان پر حملہ کرنے کے لئے پیچھے آرہا ہے۔ ایک شخص ان کے پیچھے دوڑا۔ پوچھا خیر تو ہے حضرت! آپ کے پیچھے تو کوئی بھی نہیں، پھر پرندے کی طرح کیوں اڑے چلے جارہے ہیں۔ مگر عیسیٰ
بادشاہ اور کنیز۔ دفتراول
دوستو! ایک قصہ سنو، جو ہمارے حال پر صادق آتا ہے۔ اگر اپنے حال کو ہم پرکھتے رہیں تو دنیا اور آخرت دونوں جگہ پھل پائیں۔ اگلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا جسے دنیا ودیں دونوں کی بادشاہی حاصل تھی۔ ایک دن شکار کے لئے مصاحبوں کے ساتھ سوار ہوکر نکلا۔ گھوڑا دوڑاتا
ایک گیدڑ کی شیخی جو رنگ کے نندولے میں گِر پڑا تھا۔ دفتردوم
وہم کی لذت سے تو اپنا دل اس طرح خوش کرلیتا ہے جیسے کو ئی شخص پھونک کر اپنی مشک کو پھلا لے حالانکہ وہ پھولی ہوئی مشک سوئی کے ایک چھید میں ہوا سے خالی ہوسکتی ہے۔ یہ حکایت سنو کہ ایک گیدڑ رنگ کے نندولے میں گر پڑا اور ایک گھنٹے تک اسی میں پڑا رہا۔ جب
ایک شخص کا سرِ راہ کانٹوں کی جھاڑی کو اُگنے دینا۔ دفتردوم
ایک منہ کے میٹھے دل کے کھوٹے شخص نے بیچ راستے میں کانٹوں کی جھاڑی اُگنے دی۔ جو راہ گیر اُدھر سے نکلتا وہ لعنت ملامت کرتا اور کہتا کہ اس کو اُکھیڑ دے لیکن اس کو نہ اکھیڑنا تھا نہ اکھیڑا۔ اس جھاڑی کی حالت تھی کہ ہر آن بڑھتی جاتی تھی اور خلقت کے پاؤں
نحوی اور کشتی بان۔ دفتراول
ایک نحوی کشتی میں بیٹھا اور خود پرستی سے کشتی بان سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ تم نے کچھ نحو پڑھی ہے۔ کشتی بان نے کہا نہیں، نحوی نے کہا کہ افسوس تونے اپنی آدھی عمر ضائع کی۔ کشتی بان مارے غصّے کے پیچ و تاب کھانے لگا مگر اس وقت خاموش رہا۔ اتفاقاً ہوا کے
موسیٰ کو حق تعالیٰ سے وحی ہونا کہ ہماری بیمار پُرسی کو کیوں نہیں آیا۔ دفتردوم
خدا کی طرف سے موسیٰ پر یہ عتاب ہوا کہ اے شخص کہ تونے اپنی جیب وگریباں سے سورج کو نکلتے دیکھا ہے۔ ہم نے تجھ کو خدائی نور کا مشرق بنایا ہے باوجود اس کے کہ میں بیمار ہوا تو تو پرسش تک کو نہ آیا۔ موسیٰ نے عرض کیا کہ اے پاک بے نیاز تو تو ہر نقصان و زوال سے
ایک خرگوش کا شیر کو مکر سے ہلاک کرنا۔ دفتراول
کلیلہ دمنہ سے اس قصے کو پڑھ اور اس میں سے اپنے حصے کی نصیحت حاصل کر۔ کلیلہ دمنہ میں جو کچھ تونے پڑھا وہ محض چھِلکا اور افسانہ ہے اس کا مغزاب ہم پیش کرتے ہیں۔ ایک سبزہ زار میں چرندوں کی شیر سے ہمیشہ کش مکش رہتی تھی۔ چوں کہ شیر چرندوں کی تاک میں لگا
ایک زاہد کا بے قراری میں اپناعہد توڑدینا۔ دفترسوم
میں ایک حکایت بیان کرتا ہوں اگر تم غور کرو تو حقیقت پر فریفتہ ہوجاؤ۔ ایک درویش پہاڑیوں میں رہتاتھا۔ تنہائی ہی اس کے جور و بچے تھے اور تنہائی ہی اس کی مصاحب تھی۔ پروردگار کی جانب سے اس کو مستانہ خوشبوئیں پہنچتی تھیں۔ اس لیے وہ لوگوں کے سانس کی بدبو سے
صدر جہاں کا ایسے سائل کو کچھ نہ دینا جو زبان سے مانگے۔ دفترششم
شہرِ بخارا میں صدرِجہاں کی داد و دہش مشہور تھی۔ وہ بے حد و بے حساب دیتے تھے اور صبح سے شام تک ان کے دریائے فیض سے روپئے اشرفیاں برستی رہتی تھیں۔ کاغذ کے پرزوں میں اشرفیاں لپٹی رہتی تھیں، جب تک وہ ختم نہ ہوجائیں اس وقت تک برابر دیتے رہتے تھے۔ صدرِ جہاں
ایک بیمار کا صوفی و قاضی کے چانٹا لگانا۔ دفترششم
ایک شخص طبیب کے پاس گیا اور کہا کہ ذرا میری نبض دیکھ دیجئے۔ طبیب نے نبض ہاتھ میں لی اور جان گیا کہ اس مریض کی صحت کی امید نہیں۔ اس سے کہا کہ جو تیرے جی میں آئے وہ کر، تاکہ جسم سے یہ بیماری جاتی رہے۔ اس مرض کے لئے صبر و پرہیز کو نقصان سمجھ اور جس کام
حیرت کا غلبہ بحث و فکر کو روک دیتا ہے۔ دفترسوم
ایک کچھڑی ڈاڑھی کا ادھیڑ آدمی حجّام کے ہاں آیا اور کہا کہ میری ڈاڑھی سے سفید بال چُن دے کہ میں نے نئی شادی کی ہے۔ خاص تراش نے پوری ڈاڑھی مونڈھ کر سامنے رکھ دی اور کہا کہ میاں! آپ ہی اپنی مرضی کے مطابق چن لو مجھے فرصت نہیں۔ اس سوال وجواب کا مطلب یہ ہے
ایک صحابی کا بیمار ہونا اور رسول اللہ کا عیادت کو جانا۔ دفتردوم
صحابہ میں سے ایک صاحب بیمار اور سوکھ کر کانٹا ہوگئے۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصلت سراپا لطف و کرم تھی اس لئے آپ بیمار پرسی کے لئے تشریف لے گئے۔ وہ صاحب آنحضرت کے دیدار سے زندہ ہوگئے جیسے خدا نے اسی وقت پیدا کیا۔ کہنے لگے اس بیمار نے میرا
مسلمان، یہودی اورعیسائی کا ہم سفر ہونا۔ (دفترِششم
اے فرزند ایک حکایت سن تاکہ تو خوش بیانی اور ہنر کے چکر میں نہ آئے۔ ایک سفر میں یہودی، مسلمان اور عیسائی ہمراہ ہوئے۔ جب تینوں ہمراہی کسی منزل پر پہنچے تو کوئی بھلا آدمی ان مسافروں کے لیے حلوا لایا۔ تینوں مسافروں کے سامنے حسبۃً للہ وہ حلوا رکھ دیا۔ وہ
ایک اعرابی کا خلیفہ بغداد کے پاس کھارا پانی بطورتحفہ لے جانا۔ دفتراول
اگلے زمانے میں ایک خلیفہ تھا جس نے حاتم کو بھی اپنی سخاوت کے آگے بھکاری بنادیا تھا اور دنیا میں اپنی دادودہش اور فیضِ عام سے حاجت مندی اور ناداری کی جڑ اکھیڑ دی تھی۔ مشرق سے مغرب تک اس کی بخشش کا چرچا ہوگیا۔ ایسے بادشاہ کریم کے زمانے کی ایک داستان سنو!ایک
غلام جو مسجد سے باہر نہ آتا تھا۔ دفترسوم
کسی امیر کا غلام سنقرنام گزرا ہے۔ ایک روز پچھلی رات کو امیر نے سنقر کو آواز دی اور کہاچل کھڑا ہو، پیالہ ،پٹکا، پنڈول کی مٹی لونڈی سے لے تاکہ آج بہت صبح حمام میں پہنچ جائیں۔ سنقر حاضر ہوا۔ پیالہ اور عمدہ پٹکا لیا اور دونوں کے دونوں چل دیئے۔راستے میں ایک
ایک شخص کا سنار سے ترازو مانگنا اور سنار کا جواب۔ دفترسوم
ایک آدمی سنار کے پاس سونا تولنے کے لیے ترازو مانگنے آیا۔ سنار نے کہا کہ میاں اپنا راستہ لو میرے پاس چھلنی نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ مذاق نہ کر۔ بھائی مجھے ترازو چاہیے۔ اس نے جواب دیا کہ میری دکان میں جھاڑو ہے ہی نہیں، اس نے کہا ارے بھائی ! مسخرے پن کو چھوڑ۔
ایک شہر کو آگ لگنی حضرت عمر کے زمانے میں۔ دفتراول
حضرت عمر کے زمانۂ خلافت میں ایک شہر کو آگ لگی۔ وہ اس بلا کی آگ تھی کہ پتھّر کو خشک لکڑی کی طرح جلا کر راکھ کر دیتی تھی۔ وہ مکانوں اور محلّوں کو خاک سیاہ کرتی ہوئی پرندوں گھونسلوں اور آخر کار ان کے پروں میں بھی لگ گئی۔ اس آگ کے شعلوں نے آدھا شہر لے
سائل کا حیلے سے بہلول سے بھید کہوا لینا۔ دفتردوم
ایک شخص کہہ رہاتھا کہ مجھے ایسا عقل مند چاہئے جس سے آڑ ےوقت مشورہ لیا کروں۔ کسی نے کہا کہ ہمارے شہر میں تو سوائے اس مجنوں صورت کے اور کوئی عاقل نہیں۔ دیکھ وہ شخص سرکنڈے پر سوار بچوں میں دوڑ تا پھرتا ہے۔ ظاہر میں تو دن رات گیند کھیلتا پھر تا ہے مگر باطن
تپتے بیابان میں ایک شیخ کا نماز پڑھنا اور اہلِ کارواں کا حیران رہ جانا۔ دفتردوم
ایک چٹیل میدان میں ایک زاہد خدا کی عباد ت میں مصروف تھا۔ مختلف شہروں سے حاجیوں کا قافلہ جو وہاں پہنچا تو ان کی نظر اس زاہد پر پڑی دیکھا کہ سارا میدان خشک پڑا ہے مگر وہ زاہد اس ریت پر جس کے بھپکے سے دیگ کا پانی ابلنے لگے، نماز کی نیت باندھے اس طرح کھڑے
ایاز کا اپنے پوستین کے لیے حجرہ تعمیر کرنا اور حاسدوں کی بدگمانی۔ دفترپنجم
ایاز نے جو بہت عقلمند تھا اپنے پرانے پوستین اور چپلوں کو ایک حجرے میں لٹکا رکھا تھا اور روزانہ اس حجر ے میں تنہا جاتا اور اپنے آپ سے کہتا کہ دیکھ تیری چپلیں یہ رکھی ہیں خبردار تکبّر و نخوت مت کرنا۔ لوگوں نے بادشاہ سے عرض کی کہ ایاز نے ایک حجرہ بنایا
ایک لڑکے کا نقّارے کے اونٹ کو ڈھول سے ڈرانا۔ دفترِسوم
کسی گاؤں میں کھیت کی حفاظت ایک لڑکا کیا کرتا تھا اور ایک چھوٹا سا ڈھول بجا بجا کر پرندوں کو اڑاتا رہتا تھا۔ اتفاق سے سلطان محمود کا گزر اس طرف ہوا تو اسی کھیت کے قریب لشکر کا پڑاؤ ڈالا گیا۔ اس فوج میں ایک بلند وبالا اونٹ (بختی) تھا جس پر فوجی نقارہ
ایک چور کا صاحبِ خانہ سے ہاتھ چھٹا کر بھاگنا۔ دفتردوم
ایک شخص نے گھر میں چور دیکھا اور اس کے پیچھے دوڑا یہاں تک کہ تھک کر پسینے پسینے ہوگیا۔ جب بھاگ دوڑ میں وہ اتنا قریب پہنچ گیا کہ اس کو پکڑ لے تو دوسرے چور نے پکارا کہ جی میاں! یہاں آؤ تو دیکھو بلا کے نشان یہاں ہیں۔ جلدی پلٹ کر آؤ۔ صاحبِ خانہ نے یہ آواز
ایک بادشاہ کا ملّا کو شراب پلانا۔ دفترششم
ایک بادشاہ رنگ ریلیوں میں مصروف تھا کہ ایک ملا اس کے دروازے پر سے گزرا۔ حکم دیا کہ اس کو محفل میں کھینچ لاؤ اور زبردستی شراب پلاؤ۔ پس لوگ جبراً اس کو محفل میں کھینچ لائے اور وہ آکر سانپ کے زہر کی طرح بالکل ترش رو ہو بیٹھا۔ شراب پیش کی تو اس نے قبول
حضرت عمر کے زمانے میں ایک شخص کا خیال کو ہلال سمجھ لینا۔ دفتردوم
جب دل کا آئینہ پاک صاف ہوجائے تو اس عالمِ آب و گِل سے بالا تر عالموں کے نقش بھی تو دیکھ سکتا ہے بلکہ تو نقش و نقاش دونوں کو دیکھ سکتا ہےلیکن اگر آنکھ کے سامنے ایک بال بھی آڑ ہو جائے تو تیرا خیال (قیاس) دُرِ شاہ وار کو بھی پوتھ بتلا تاہے تو پوتھ اور موتی
aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere